تیرا ہی ذکر ہر سُو تِرا ہی بیاں ملے
کھولوں کوئی کتاب تیری داستاں ملے
دنیا کے شور و شر سے بہت تنگ آ گئے
ممکن ہے اب تِری ہی گلی اماں ملے
پیدا تو کر بلندیاں اپنے خیال میں
شاید اسی زمیں پہ تجھے آسماں ملے
بس ایک بار اس سے ملاقات کیا ہوئی
تا عمر اپنے آپ کو پھر ہم ملے
محسوس تیرے قدموں کی ہو آہٹیں جہاں
ان راستوں پہ بکھری ہوئی کہکشاں ملے
ڈھونڈ تو تو کہیں بھی دکھائی نہ دے مجھے
دیکھوں تو ذرے ذرے میں تُو ہی نہاں ملے
وہ بد نصیب ہے جو بھٹکتے ہے در بہ در
وہ خوش نصیب جن کو تیرا آستاں ملے
سیا سچدیو
No comments:
Post a Comment