Monday 28 June 2021

وہ کھل کر مجھ سے ملتا بھی نہیں ہے

 وہ کھل کر مجھ سے ملتا بھی نہیں ہے

مگر نفرت کا جذبہ بھی نہیں ہے

یہاں کیوں بجلیاں منڈلا رہی ہیں

یہاں تو ایک تنکا بھی نہیں ہے

برہنہ سر میں صحرا میں کھڑا ہوں

کوئی بادل کا ٹکڑا بھی نہیں ہے

چلے آؤ مِرے ویران دل تک

ابھی اتنا اندھیرا بھی نہیں ہے

سمندر پر ہے کیوں ہیبت سی طاری

مسافر اتنا پیاسا بھی نہیں ہے

مسائل کے گھنے جنگل سے یارو

نکل جانے کا رستہ بھی نہیں ہے

عجب ماحول ہے گلشن کا فرحت

ہوا کا تازہ جھونکا بھی نہیں ہے


فرحت قادری

No comments:

Post a Comment