وہ کون سے خطرے ہیں جو گلشن میں نہیں ہیں
ہم موت کے منہ میں ہیں نشیمن میں نہیں ہیں
یہ جشن طرب اور یہ بے رنگیٔ محفل
دو پھول بھی کیا وقت کے دامن میں نہیں ہیں
چھپ چھپ کے کسے برق ہوس ڈھونڈھ رہی ہے
گنتی کے وہ خوشے بھی تو خرمن میں نہیں ہیں
امروز کے دکھتے ہوئے دل کی میں صدا ہوں
دیروز کے نوحے مِرے شیون میں نہیں ہیں
چاک جگر اے دست کرم سی تو رہا ہے
گرہیں تو کہیں رشتۂ سوزن میں نہیں ہیں
مجبور اب اتنا بھی اسیروں کو نہ سمجھو
ایسے بھی ہیں کچھ طوق جو گردن میں نہیں ہیں
رنگ نگہ شوق بھرے کون چمن میں
تنکے بھی تو یعقوب نشیمن میں نہیں ہیں
یعقوب عثمانی
No comments:
Post a Comment