Monday 28 June 2021

شب آ گئی ہے جلنے دے اے ہمنشیں مجھے

 شب آ گئی ہے جلنے دے اے ہمنشیں مجھے

شمع ہوں، انتظار کی عادت نہیں مجھے

بزمِ خیالِ یار میں پنہاں تھے کتنے رنگ

تجھ کو گمان دے گئے سونپا یقیں مجھے

اے طائرِ خیال، متاعِ حیاتِ نَو

کھوئی ہے جس دیار میں، لے چل وہیں مجھے

جب سے تِرا وجود تصرّف میں ہے مِرے

لگتی ہے کائنات یہ زیرِِ نگیں مجھے

آہٹ کسی کے پاؤں کی سائے سا اک وجود

محسوس اب بھی ہوتا ہے دل کے قریں مجھے

لکھی تھی جو نصیب میں دونوں کو مل گئی

تجھ کو یہ کائنات تو دو گز زمیں مجھے

دو راستے نگاہ میں اک آب، اک سراب

ڈالے ہیں امتحان میں دنیا و دِیں مجھے

سورج ہے میرے سامنے تارے ہیں پُشت پر

منزل دکھائی دے گی ہے اس کا یقیں مجھے

کچھ بول دے کہ بولنا اکمل کے حق میں ہے

رُسوا تِرا سکوت نہ کر دے کہیں مجھے


افضال اکمل قاسمی

No comments:

Post a Comment