شریکِ غم کوئی کب معتبر نکلتا ہے
سوائے دل کے سو وہ بے خبر نکلتا ہے
یہ کیسا شہر ہے کیسی ہے سر زمیں اس کی
جہاں کی خاک پلٹتا ہوں سر نکلتا ہے
جدھر ہیں پیاسے ادھر بارشیں ہیں تیروں کی
جدھر غنیم ہے، دریا ادھر نکلتا ہے
اسے خبر ہے کہ ظلمت ہے صف بہ صف ہر سو
اجالا ہاتھ میں لے کر سپر نکلتا ہے
حفیظ ہاتھوں کا سایہ ہے سائباں جیسا
یقین ہوتا ہے دل کو نہ ڈر نکلتا ہے
عجیب دھند ہے دشت سفر پہ چھائی ہوئی
نہ ختم ہوتا ہے رستہ نہ گھر نکلتا ہے
مجیبی سونپ دی جس کو متاعِ جاں میں نے
اسی کا قرض مِرے نام پر نکلتا ہے
صدیق مجیبی
No comments:
Post a Comment