سمجھے ہیں مثل کاہ مجھے مارتے ہیں لوگ
کتنے ہیں کم نگاہ مجھے مارتے ہیں لوگ
اتنا بھی احتجاج گوارا نہیں انہیں
بھرتا ہوں جب بھی آہ مجھے مارتے ہیں لوگ
مانا کہ تیرے عدل کا ڈنکا ہے چار سو
لیکن اے کج کلاہ مجھے مارتے ہیں لوگ
طے ہے کہ پھر گرا دیا جاوں گا چاہ میں
پہلے برون چاہ مجھے مارتے ہیں لوگ
یوں بھی فروغ دیتے ہیں اپنے دروغ کو
لا کر کوئی گواہ مجھے مارتے ہیں لوگ
یعقوب پرواز
No comments:
Post a Comment