مکتب عشق
تمہاری محبت نے سکھایا
غم کیسے سہا جاتا ہے
صدیوں سے اک ایسی عورت کی تلاش تھی مجھے
جو لذت غم سے
آشنا کرتی
اک ایسی عورت
جس کے کندھوں پر سر رکھ کر
کسی پرندے کی طرح رو پاتا
اک ایسی عورت
جو ٹوٹے ہوئے شیشے کی طرح
میرے وجود کے ذروں کو سمیٹ پاتی
اے راحتِ جاں
تمہاری محبت نے
مجھ میں بد ترین عادات کو ابھارا
تمہاری محبت نے سکھایا
کس طرح ہر رات
ہزار بار قہوہ پیا جائے
طبیبوں کے ہاں جایا جائے
اور جوتشیوں سے قسمت کا حال معلوم کیا جائے
تمہاری محبت کی عنایت ہے
بے مقصد باہر پھرنا
گلیوں کی خاک چھاننا
تمہارے خد و خال
بارش کی بوندوں
اور روشنیوں کی جھلملاہٹ میں تلاش کرنا
تمہارے عکس کو
اجنبیوں کے چہروں میں ڈھونڈنا
حتیٰ کہ تمہارا احساس مہک
اخباروں میں بھی محسوس کرنا
یہ تمہاری محبت ہی ہے
جس نے مجھے افسردگی کے شہر سے آشنائی بخشی
قبل ازیں اس سے
کبھی گزر نہیں ہوا تھا
مجھے بالکل بھی اندازہ نہیں تھا
کہ انسان کا آنسو اس قدر ملائم و شفیق ہوتا ہے
اور انسان
آنسوؤں کے بغیر
محض اک یاد ہے
تمہاری محبت نے سکھایا
بچوں کی طرح دیواروں پہ چاک سے تمہارا نقش بنانا
تمہاری محبت نے سکھایا
کس طرح محبت
وقت کی پیمائشوں کو بدل کے رکھ دیتی ہے
میں جب تمہیں پیار کرنے لگتا ہوں
زمین تب بھی
اپنے محور پہ رکی رہتی ہے
تمہاری محبت نے سکھایا
فریب نظر کسے کہتے ہیں
تمہاری محبت نے سکھایا
کس طرح غیر اہم چیزوں میں
تم سے محبت کا احساس تلاشا جائے
جیسے مئے
خزاں رسیدہ درخت
گرتے زرد پتے
برستی بارش
اور ہر اس کیفے ٹیریا میں
جہاں ہم نے سیاہ قہوہ پیا
متاعِ جاں
تمہاری محبت نے سکھایا
غیر معروف ہوٹلوں میں قیام کرنا
گمنام ساحلوں پہ
سستانا
اور بِن آنسوؤں کے رونا
تمہاری محبت نے سکھایا
غم کیسے سہا جاتا ہے
صدیوں سے اک ایسی عورت کی تلاش تھی مجھے
جو لذتِ غم سے آشنا کرتی
اک ایسی عورت
جس کے کندھوں پہ سر رکھ کر
کسی پرندے کی طرح
رو پاتا
اک ایسی عورت
جو ٹوٹے ہوئے شیشے کی طرح
میرے وجود کے ذروں کو سمیٹ پاتی
نزار قبانی
No comments:
Post a Comment