مزاجِ شہر جو تحریر کرنے نکلے ہیں
ہم اپنے آپ کو دِلگیر کرنے نکلے ہیں
نکل کے خواب سرا سے بُجھا کے چشمِ گماں
خیال و خواب کو تعبیر کرنے نکلے ہیں
سجا کے آنکھ میں وحشت، بدن پہ ویرانی
تِرے جمال کی تشہیر کرنے نکلے ہیں
جو دن کی بھیڑ میں ہم سے بچھڑ گئی تھی کہیں
اس ایک شام کو تصویر کرنے نکلے ہیں
بہت ہی سادہ ہیں ہم بھی اٹھا کے یاد کوئی
گئے دنوں کو جو زنجیر کرنے نکلے ہیں
لباسِ عشق سجا کر بدن پہ ہم خاور
طلسمِ حسن کو تسخیر کرنے نکلے ہیں
اقبال خاور
No comments:
Post a Comment