اب تِرے میرے بیچ میں ایسا بنا رہے
تُو چھوڑ دے مگر کوئی رشتہ بنا رہے
کتنے غریب لوگ یہاں قتل ہو گئے
بس اس پہ کہ امیر کا رستہ بنا رہے
وہ شخص مجھ کو چھوڑ گیا دل سے کٹ گیا
پھر بھی وہ چاہتا ہے؛ تماشہ بنا رہے
ہم امن چاہتے تھے، قبیلے کا سربراہ
یہ چاہتا تھا؛ گاؤں میں جھگڑا بنا رہے
ہم اس لیے بھی تم سے تعلق نبھا گئے
شاہد ہماری ذات پہ قصہ بنا رہے
شاہد ریاض
No comments:
Post a Comment