کسی کے عشق میں ہر بات آزمائی گئی
بس اس حصول مسرت میں مات کھائی گئی
گئے دنوں میں ہُوا تھا جہاں پہ قتل میرا
ہاں اس کے بعد وہاں چیخ پھر سنائی گئی
خدا گواہ کہ بھائی یونہی جھگڑتے رہے
ہمارے صحن میں دیوار بھی اُٹھائی گئی
میں چھوٹے گاؤں سے آیا تھا اس لیے مجھ کو
تمہارے پیار کی قیمت گراں بتائی گئی
میں اس دفعہ جسے اپنا بنانے آیا تھا
کچھ ایسا تلخ تھا لہجہ کہ آشنائی گئی
پلٹ کے جانے کا سوچا نہیں گیا تھا کبھی
سو اس لیے تو یہ کشتی مِری جلائی گئی
مجھے پتا تھا کہ ہاروں گا میں ہی آخر میں
مگر وہ بازی تِری جیت میں لگائی گئی
گِلہ تو یہ بھی میرا ماں سے بنتا ہے زاہد
کہانی سچ ہی نہ تھی جو مجھے سنائی گئی
زاہد خان
No comments:
Post a Comment