رکھا تھا دشمنوں کو بھی حیرت میں ڈال کے
کچھ فائدے ضرور ہیں مکڑی کے جال کے
حیران ہوں کہ میری طرح کا ہی ایک شخص
لایا ہے آئینہ یہ کہاں سے نکال کے
یہ دشت ہے اور آبلہ پائی بھی شرط ہے
اس جا پہ مختلف ہیں قواعد دھمال کے
درویشِ بے نیاز بگڑ جائے گا حضور
کیجے گا آپ بات ذرا منہ سنبھال کے
ہم پر زوال آ نہیں سکتا کبھی جمال
رہتے ہیں ہم تو سائے میں اک لازوال کے
حسیب جمال
No comments:
Post a Comment