Monday 25 April 2022

پتھریلی سی شام میں تم نے ایسے یاد کیا جانم

 پتھریلی سی شام میں تم نے ایسے یاد کیا جانم

ساری رات تمہاری خاطر میں نے زہر پیا جانم

سورج کی مانند بنا ہوں ریزہ ریزہ بکھرا ہوں

اب جیون کا سر چشمہ ہوں ویسے خوب جلا جانم

تم نے مجھ میں جو کچھ کھویا اس کی قیمت تم جانو

میں نے تم سے جو کچھ پایا ہے وہ بیش بہا جانم

تم کو بھی پہچان نہیں ہے شاید میری الجھن کی

لیکن ہم ملتے رہتے تو اچھا ہی رہتا جانم

یہ صاحب جن سے مل کر سب کا جی خوش ہو جاتا ہے

رات گئے تک ان کے کمرے میں جلتا ہے کیا جانم

رکھ پاؤ تو روک لو ہم کو گہرائی کے باسی ہیں

بہتے پانی کے قطروں میں ہوتا ہے دریا جانم

درد جدائی میں لکھے ہیں شعر تمہارے نام بہت

تم میرے گھر میں رہتیں تو کیا ایسا ہوتا جانم


انیس انصاری

No comments:

Post a Comment