پہلے تو شہر بھر میں اندھیرا کیا گیا
پھر ہم سے روشنی کا تقاضا کیا گیا
پہلے تو سازشوں سے ہمیں دی گئی شکست
پھر خوب اس شکست کا چرچا کیا گیا
اک شخص کے لیے مری بستی کا راستہ
کچے مکاں گرا کے کشادہ کیا گیا
پہلے تو مجھ کو راہ بتائی گئی غلط
پھر میری گمرہی کا تماشا کیا گیا
دنیا نہ تھی جو پیار کے قابل تو کس لیے
ہم کو اسیر خواہش دنیا کیا گیا
اس گلشن حیات میں رنگ خزاں کے ساتھ
اک موسم بہار بھی پیدا کیا گیا
آنکھوں کو آنسوؤں کے جواہر دئیے گئے
دل کے سپرد غم کا خزانہ کیا گیا
دنیا ہمارے قتل کو کہتی ہے خود کشی
مرنے کے بعد بھی ہمیں رسوا کیا گیا
شاہد لکھا گیا تھا ہمارے ہی خون سے
تصنیف جب وفا کا صحیفہ کیا گیا
حفیظ شاہد
No comments:
Post a Comment