Saturday 23 April 2022

پہلے تو شہر بھر میں اندھیرا کیا گیا

 پہلے تو شہر بھر میں اندھیرا کیا گیا

پھر ہم سے روشنی کا تقاضا کیا گیا

پہلے تو سازشوں سے ہمیں دی گئی شکست

پھر خوب اس شکست کا چرچا کیا گیا

اک شخص کے لیے مری بستی کا راستہ

کچے مکاں گرا کے کشادہ کیا گیا

پہلے تو مجھ کو راہ بتائی گئی غلط

پھر میری گمرہی کا تماشا کیا گیا

دنیا نہ تھی جو پیار کے قابل تو کس لیے

ہم کو اسیر خواہش دنیا کیا گیا

اس گلشن حیات میں رنگ خزاں کے ساتھ

اک موسم بہار بھی پیدا کیا گیا

آنکھوں کو آنسوؤں کے جواہر دئیے گئے

دل کے سپرد غم کا خزانہ کیا گیا

دنیا ہمارے قتل کو کہتی ہے خود کشی

مرنے کے بعد بھی ہمیں رسوا کیا گیا

شاہد لکھا گیا تھا ہمارے ہی خون سے

تصنیف جب وفا کا صحیفہ کیا گیا


حفیظ شاہد

No comments:

Post a Comment