ہجر کی سیج پہ دن رات گزارے کم تھے
کیسے کہہ دوں کہ محبت میں شرارے کم تھے
ڈوبنے والے محبت میں بہت تھے تِری
اک سمندر تھا مگر اس کے کنارے کم تھے
زخم ہی زخم تھے پوشاکِ وفا پر صاحب
دامنِ عشق پہ نکلے ہوئے تارے کم تھے
اتنی خوش فہمیاں پائیں تھیں صعوبت میں تِری
زندہ رہنے کے لیے یار سہارے کم تھے
اس نے حالات کی لہروں میں سمویا مجھ کو
موج در موج جہاں عشق کے دھارے کم تھے
مِرے وجدان کی تنہائی میں کچھ دیر رہے
آپ کا حسنِ نظر جس میں خسارے کم تھے
لوگ خوابوں سے نکل آئے تو جانا ہم نے
رنگ تعبیر کے آنکھوں میں اتارے کم تھے
اس کو بے ساختہ ہنستے ہوئے دیکھا تو لگا
اس کی صحبت میں رضا لمحے گزارے کم تھے
حسن رضا
No comments:
Post a Comment