تلوار ہے، علم ہے، ارادہ ہے میرے پاس
جو کچھ بھی ہے امام کا صدقہ ہے میرے پاس
یہ رات آخری ہے مِری زندگی کی اور
وہ بھی ہمیشہ کے لیے آیا ہے میرے پاس
وہ شخص صرف شخص نہیں غارِ ثور ہے
مکہ کے ساتھ ساتھ مدینہ ہے میرے پاس
زندان میں اب آخری قیدی بچا ہوں میں
سب کے لکھے خطوں کا اثاثہ ہے میرے پاس
وادی میں جلتے پھول بُلاتے ہیں جس طرح
ویسے ہی اس نگاہ کا دھوکہ ہے میرے پاس
مرنے کے بعد پوری ہو شاید یہ میری نیند
کتنے ادھورے خوابوں کا لاوا ہے میرے پاس
لوگوں نے کشتیوں میں ہی عمریں گزار دیں
ان کو خبر نہیں کہ خزانہ ہے میرے پاس
کوئی تو پاس آیا ہے تنہائی توڑ کر
میں خوش ہوں میرے خون کا پیاسا ہے میرے پاس
وقار خان
No comments:
Post a Comment