Sunday 24 April 2022

ایک اشارے میں بدل جاتا ہے میخانے کا نام

 ایک اشارے میں بدل جاتا ہے میخانے کا نام

چشم ساقی تیری گردش سے ہے پیمانے کا نام

پہلے تھا موج بہاراں دل کے لہرانے کا نام

مسکن برق تپاں ہے اب تو کاشانے کا نام

آس جس کی ابتدا تھی یاس جس کی انتہا

اے دلِ ناکام! کیا ہو ایسے افسانے کا نام

رنگ لا کر ہی رہا آخر محبت کا اثر

آج تو ان کی زباں پر بھی ہے دیوانے کا نام

آسماں پر برق گلشن میں صبا دریا میں موج

جس جگہ دیکھو نیا ہے زلف لہرانے کا نام

موت ہو یا وہ ہوں دونوں ہیں علاج درد دل

وائے قسمت ایک بھی لیتا نہیں آنے کا نام

زلف مشکیں لالہ رخ گل پیرہن مست بہار

موسم گل ہے تمہارے بام پر آنے کا نام

عشق کی تصویر کا یہ دوسرا رخ ہے وقار

شمع جلتی ہے مگر ہوتا ہے پروانے کا نام


وقار بجنوری

No comments:

Post a Comment