Sunday, 24 April 2022

مجھ ایسا شخص اگر قہقہوں سے بھر جائے

 مجھ ایسا شخص اگر قہقہوں سے بھر جائے

یہ سانس لیتی اداسی تو گھٹ کے مر جائے

زباں پہ سورۂ یوسف کا ورد جاری ہو

وہ حسن پوش اگر پاس سے گزر جائے

یہ جوئے عشق ہے بھائی نہیں ہے آب رواں

یہ دل ہے دل کوئی دریا نہیں کہ بھر جائے

بھکاریوں کو بھکاری سمجھ کے ڈانٹتا ہے

وزیر چاہتا ہے بادشہ کا سر جائے

وہ میرے بعد ترس جائے گا محبت کو

اسے یہ کہنا؛ اگر ہو سکے تو مر جائے

جو دن میں اپنے ہی سائے سے خوف کھاتا رہا

اندھیری رات میں وہ اجنبی کدھر جائے

خدائے میر وہ لہجہ مجھے عطا کر دے

غزل یہاں پہ کہوں میر تک خبر جائے


راکب مختار

No comments:

Post a Comment