مجھ ایسا شخص اگر قہقہوں سے بھر جائے
یہ سانس لیتی اداسی تو گھٹ کے مر جائے
زباں پہ سورۂ یوسف کا ورد جاری ہو
وہ حسن پوش اگر پاس سے گزر جائے
یہ جوئے عشق ہے بھائی نہیں ہے آب رواں
یہ دل ہے دل کوئی دریا نہیں کہ بھر جائے
بھکاریوں کو بھکاری سمجھ کے ڈانٹتا ہے
وزیر چاہتا ہے بادشہ کا سر جائے
وہ میرے بعد ترس جائے گا محبت کو
اسے یہ کہنا؛ اگر ہو سکے تو مر جائے
جو دن میں اپنے ہی سائے سے خوف کھاتا رہا
اندھیری رات میں وہ اجنبی کدھر جائے
خدائے میر وہ لہجہ مجھے عطا کر دے
غزل یہاں پہ کہوں میر تک خبر جائے
راکب مختار
No comments:
Post a Comment