برائے نام سہی کوئی مہربان تو ہے
ہمارے سر پہ بھی ہونے کو آسمان تو ہے
تِری فراخ دلی کو دعائیں دیتا ہوں
مِرے لبوں پہ تِرے لمس کا نشان تو ہے
یہ اور بات کہ وہ اب یہاں نہیں رہتا
مگر یہ اس کا بسایا ہوا مکان تو ہے
سروں پہ سایہ فگن ابر آرزو نہ سہی
ہمارے پاس سرابوں کا سائبان تو ہے
علاوہ اس کے نہ کچھ اور پردہ رکھ مجھ سے
فصیل جسم مِرے تیرے درمیان تو ہے
بچھڑ کے زندہ نہیں رہ سکیں گے ہم دونوں
مجھے یہ وہم تو ہے ان کو یہ گمان تو ہے
بھلی بری سہی موجوں میں اپنی ناؤ تو ہے
کٹا پھٹا سہی کہنے کو بادبان تو ہے
گلِ مراد نہیں سنگ ہائے طفل سہی
غریب شہر کا آخر کسی کو دھیان تو ہے
عقیل شاداب
No comments:
Post a Comment