مجھے محسن کے مصرعے کھا گئے ہیں
زمانے کو زمانے کھا گئے ہیں
محبت کے علاوہ کچھ عطا کر
یہ زہر ہم لوگ پہلے کھا گئے ہیں
تِری آنکھوں پہ پلکیں جھک گئی ہیں
سمندر کو کنارے کھا گئے ہیں
میاں ہم تو ہیں دھوک کھانے والے
وہ اور ہوں گے جو پیسے کھا گئے ہیں
مِرے آنسو مجھے کھاتے رہے ہیں
تِرے آنسو ستارے کھا گئے ہیں
فقط اب تو حوس ہی رہ گئی ہے
محبت کو تو فتوے کھا گئے ہیں
ہمیں اچھوں کی اچھائی نے کھایا
ہمارے عیب اچھے کھا گئے ہیں
محبت پر کریں گے تبصرہ کیا؟
ہم اس مکتب میں جوتے کھا گئے ہیں
ہماری نیند روٹی لے اڑی ہے.
ہمارے خواب فاقے کھا گئے ہیں
ہمیں لہجوں کے پتھر لگ رہے ہیں
ہمیں لفظوں کے نیزے کھا گئے ہیں
ذرا پہلے تھے آئے لیلی مجنوں
وہ ہم دونوں کے قصے کھا گئے ہیں
مِری آنکھوں کو پانی پی گیا ہے
تِری تصویر بٹوے کھا گے ہیں
خفا ہرگز نہ ہونا کہ تِرے خط
تِرے حصے کے بوسے کھا گئے ہیں
محبت سے ضرورت محترم ہے
ہمارا وقت پیسے کھا گئے ہیں
مِرے گھر میں لگے شیشم کا سایا
مجھے لگتا ہے پنکھے کھا گئے ہیں
مِری بستی کا ان پڑھ بوڑھا عالم
اُسے چہروں کے کتبے کھا گئے ہیں
کاظم حسین
No comments:
Post a Comment