Saturday, 23 April 2022

اپنی نا کردہ گناہی کی سزا ہو جیسے

 اپنی نا کردہ گناہی کی سزا ہو جیسے

ہم سے اس شہر میں ہر ایک خفا ہو جیسے

سوچتے چہروں پہ جلتے ہوئے آثار حیات

یک بہ یک وقت کا عرفان ہوا ہو جیسے

یہ دھندلکے یہ در و بام کا گمبھیر سکوت

چاندنی رات میں مہتاب لٹا ہو جیسے

تجھ سے ملنے کی تمنا تِری قربت کا خیال

ریگ زاروں میں کوئی پھول کھلا ہو جیسے

وہی خوبی وہی اخلاص و مروت کے نشاں

حیدرآباد کہ اک شہر وفا ہو جیسے


وکیل اختر

No comments:

Post a Comment