لوگ زندہ رہتے ہیں ہستیاں مر جاتی ہیں
گھر ہی باقی رہ جائیں تو بستیاں مر جاتی ہیں
ملاح عیش کوش ہوں جب لہروں کو گنیں
تو پانیوں پر ٹھہری ہوئی کشتیاں مر جاتی ہیں
خراج ہنر نہ ملے عزت نہ دعاؤں کا صلہ
پھر اچانک اچھی لڑکیاں مر جاتی ہیں
بھرتی رہتی ہیں غم کے کچے وہ گھڑے
دل کے ڈونگے سمندر کو سہتیاں مر جاتی ہیں
بھنبھورکو لٹیرا کوئی لوٹے یا نہ لوٹے، ہاں
پی کے خوابوں کا زہر سسیاں مر جاتی ہیں
فاریہ حمید
No comments:
Post a Comment