Sunday, 24 April 2022

لوگ زندہ رہتے ہیں ہستیاں مر جاتی ہیں

 لوگ زندہ رہتے ہیں ہستیاں مر جاتی ہیں

گھر ہی باقی رہ جائیں تو بستیاں مر جاتی ہیں

ملاح عیش کوش ہوں جب لہروں کو گنیں

تو پانیوں پر ٹھہری ہوئی کشتیاں مر جاتی ہیں

خراج ہنر نہ ملے عزت نہ دعاؤں کا صلہ

پھر اچانک اچھی لڑکیاں مر جاتی ہیں

بھرتی رہتی ہیں غم کے کچے وہ گھڑے

دل کے ڈونگے سمندر کو سہتیاں مر جاتی ہیں

بھنبھورکو لٹیرا کوئی لوٹے یا نہ لوٹے، ہاں

پی کے خوابوں کا زہر سسیاں مر جاتی ہیں


فاریہ حمید

No comments:

Post a Comment