یکایک مجھے یوں تِرا دھیان اپنی طرف کھینچتا ہے
کہ جیسے پجاری کو بھگوان اپنی طرف کھینچتا ہے
میں جتنی بھی تدبیریں کرلوں مِرے ہاتھ رہتے ہیں خالی
مجھے میرے حصے کا نقصان اپنی طرف کھینچتا ہے
تو کیا طے شدہ ہے دوبارہ کسی سے مجھے پیار ہو گا
سنا ہے کہ مجرم کو زندان اپنی طرف کھینچتا ہے
وگرنہ، مجھے میرے دل کا دھڑکنا سنائی نہ دیتا
کوئی اس میں ہے جو مِرے کان اپنی طرف کھینچتا ہے
مِرا بھیگی مٹی سے اٹھتی مہک پر بہکنا بجا ہے
کہ مٹی کو مٹی کا میلان اپنی طرف کھینچتا ہے
کہاں توبہ کرتے ہیں فوراً ہم ایسے گنہگار خصلت
بھٹکتے ہیں تب جا کے ایمان اپنی طرف کھینچتا ہے
سنا تھا مگر، بات کر کے، مکمل یقیں آ گیا ہے
وہ ساحر تو باتوں کے دوران اپنی طرف کھینچتا ہے
نثار محمود تاثیر
No comments:
Post a Comment