Saturday 23 April 2022

عشق میں خود سری نہیں ہوتی

 عشق میں خود سری نہیں ہوتی

حسن میں بندگی نہیں ہوتی

ناوک افگن بتا تو دے آخر

درد میں کیوں کمی نہیں ہوتی

راز الفت کہاں چھپائیں ہم

دل سے بھی دشمنی نہیں ہوتی

وہ محبت بھی کیا محبت ہے

جس میں دیوانگی نہیں ہوتی

آہ کر کے بھی ہم نے دیکھ لیا

سوز غم میں کمی نہیں ہوتی

مست آنکھوں ہی سے پلا ساقی

جام سے بے خودی نہیں ہوتی

جب کبھی سامنے وہ آتے ہیں

ہم سے اک بات بھی نہیں ہوتی

کیا کریں ایسے غم کو ہم لے کر

جس میں ان کی خوشی نہیں ہوتی

کیسی تقدیر ہے ہماری وقار

غم ہی غم ہیں خوشی نہیں ہوتی


وقار بجنوری

No comments:

Post a Comment