Tuesday 26 April 2022

نام تیرا بھی رہے گا نہ ستمگر باقی

 نام تیرا بھی رہے گا نہ ستم گر باقی

جب ہے فرعون نہ چنگیز کا لشکر باقی

اپنے چہروں کو سیاہی میں چھپانے والو

نوکِ نیزہ پہ ہے سورج سا کوئی سر باقی

تیرے ورثے پہ ہیں غاصب کی عقابی نظریں

غفلتوں سے نہیں رہتے یہ جواہر باقی

اک صدف سطح سمندر پہ بہا جاتا ہے

اور ساحل پہ نہیں ایک شناور باقی

ایک صف ہوں تو بنیں سیسہ پلائی دیوار

ہوں عدو کے لیے راہیں نہ کہیں در باقی

قدر کم ہوتی ہے تقسیم جو ہوتا ہے عدو

حاصل جمع میں برکت ہے برابر باقی

جال پھر لایا ہے صیاد پھنسانے کے لیے

مل کے اڑ جائیں پرندے نہ رہے ڈر باقی

ظلم سے سر کو نہ ٹکرائیں تو پھر سجدہ کریں

ہاں پتہ ہے کہ در ہو گا نہ کہیں سر باقی

ہم شہیدوں کو کبھی مردہ نہیں کہتے انیس

رزق جنت میں ملے شان یہاں پر باقی


انیس انصاری

No comments:

Post a Comment