زہراب پینے والے امر ہو کے رہ گئے
نیساں کے چند قطرے گہر ہو کے رہ گئے
اہل جنوں وہ کیا ہوئے جن کے بغیر ہم
اہل خرد کے دست نگر ہو کے رہ گئے
صحرا گئے تو شہر میں اک شور مچ گیا
جب لوٹ آئے شہر بدر ہو کے رہ گئے
امید کے حبابوں پہ اگتے رہے محل
جھونکا سا ایک آیا کھنڈر ہو کے رہ گئے
راہوں پہ دوڑتے رہے آتش بہ زیرپا
منزل ملی تو خاک بسر ہو کے رہ گئے
آوارہ گرد مثل بگولوں کے ہم رہے
بیٹھے تو گرد راہگزر ہو کے رہ گئے
بڑھتے رہے سرابوں پہ مانند تشنگی
پانی ملا تو خشک شجر ہو کے رہ گئے
نظریں تلاش حسن میں جا پہنچیں تا افق
جلوے تمام حد نظر ہو کے رہ گئے
پابندیوں میں تھے تو دکھاتے تھے معجزے
آزادیوں میں شعبدہ گر ہو کے رہ گئے
ڈھالے گئے تو پتھروں سے پھوٹ نکلے راگ
توڑے گئے تو رقص شرر ہو کے رہ گئے
چنگ و رباب میں رہے مانند نغمگی
تیغ و سناں میں سینہ سپر ہو کے رہ گئے
منہ جتنے اتنی باتیں کہی جا رہی ہیں آج
یوں مشتہر ہوئے کہ خبر ہو کے رہ گئے
وامق دو دھاری تیغ ہے وہ لہجۂ جدید
نغمے تمام خون میں تر ہو کے رہ گئے
وامق جونپوری
No comments:
Post a Comment