Saturday, 23 April 2022

زہراب پینے والے امر ہو کے رہ گئے

 زہراب پینے والے امر ہو کے رہ گئے

نیساں کے چند قطرے گہر ہو کے رہ گئے

اہل جنوں وہ کیا ہوئے جن کے بغیر ہم

اہل خرد کے دست نگر ہو کے رہ گئے

صحرا گئے تو شہر میں اک شور مچ گیا

جب لوٹ آئے شہر بدر ہو کے رہ گئے

امید کے حبابوں پہ اگتے رہے محل

جھونکا سا ایک آیا کھنڈر ہو کے رہ گئے

راہوں پہ دوڑتے رہے آتش بہ زیرپا

منزل ملی تو خاک بسر ہو کے رہ گئے

آوارہ گرد مثل بگولوں کے ہم رہے

بیٹھے تو گرد راہگزر ہو کے رہ گئے

بڑھتے رہے سرابوں پہ مانند تشنگی

پانی ملا تو خشک شجر ہو کے رہ گئے

نظریں تلاش حسن میں جا پہنچیں تا افق

جلوے تمام حد نظر ہو کے رہ گئے

پابندیوں میں تھے تو دکھاتے تھے معجزے

آزادیوں میں شعبدہ گر ہو کے رہ گئے

ڈھالے گئے تو پتھروں سے پھوٹ نکلے راگ

توڑے گئے تو رقص شرر ہو کے رہ گئے

چنگ و رباب میں رہے مانند نغمگی

تیغ و سناں میں سینہ سپر ہو کے رہ گئے

منہ جتنے اتنی باتیں کہی جا رہی ہیں آج

یوں مشتہر ہوئے کہ خبر ہو کے رہ گئے

وامق دو دھاری تیغ ہے وہ لہجۂ جدید

نغمے تمام خون میں تر ہو کے رہ گئے


وامق جونپوری

No comments:

Post a Comment