تصویر بنی ہے پانی کی، یا آگ بھری ہے مٹی میں
یہ دشت ہے مجنوں صاحب کا، شوریدہ سری ہے مٹی میں
کُرلاتی ہوا کا غلبہ ہے،۔ کاٹھی ہے کہ بکھرا ملبہ ہے
چرکوں سے بھڑک ہے اگنی میں، خونناب تِری ہے مٹی میں
سب ہستی بستی بھول گیا، چل چل کے سانس بھی پھول گیا
کوئی افسوں ہے ویرانے میں، کوئی جادوگری ہے مٹی میں
ہلکورے! سبک ہلکورے ہیں، آنکھوں میں گلابی ڈورے ہیں
کافوری ترنگ ہے شیشے میں، اک لال پری ہے مٹی میں
مٹّی پہ اکڑ کے دیکھ لیا، مٹّی سے بگڑ کے دیکھ لیا
یا نیند بھری ہے مٹّی میں یا بے خبری ہے مٹی میں
دریا ہے، فوج ہے، پہرا ہے، شمشیر کا رنگ سنہرا ہے
اک سرخ گلاب ہے نیزے پر، اک شاخ ہری ہے مٹی میں
ماتھے پہ غبارِ مقتل ہے، چھاتی پر چاند مکمل ہے
سورج کی لپک ہے آنکھوں میں، اور بے خطری ہے مٹی میں
غش میں تھا جگر جل جانے سے، چونکا تھا کسی کے آنے سے
زنجیر میں زندہ زندانی، دھڑکن سے بری ہے مٹی میں
اترا تھا کسی گہوارے سے، گزرا تھا اجل کے دوارے سے
آنکھیں جو کھلیں تو دیکھتا ہوں اک بارہ دری ہے مٹی میں
عارف امام
No comments:
Post a Comment