دعاؤں کی ردا کا اس پہ سایا ہو گیا ہوتا
اگر وہ شخص بیکس کا سہارا ہو گیا ہوتا
جہاں کے درد کا ہر سو مدوا ہو گیا ہوتا
اگر الفاظ سے غم کا ازالہ ہو گیا ہوتا
سمندر کے تلاطم سے جو لاتے گوہرِ تاباں
ہمیشہ کے لیے روشن کنارا ہو گیا ہوتا
اگر راتیں ہماری مثل پیغمبر گزرتیں تو
یقیناً کامیابی کا سویرا ہو گیا ہوتا
تجھے قربت فقیہان عرب جو مل گئی ہوتی
تِرے دل کے اندھیرے میں اجالا ہوگیا ہوتا
محبت کے شفق سے تم اگر تعمیر کرتے گھر
تمہارے گھر کا روشن ہر منارا ہو گیا ہوتا
اگر میں وقت پر اس کو بچا لیتا نہیں صوفی
یقیناً وہ سر بازار رسوا ہو گیا ہوتا
صوفی بستوی
No comments:
Post a Comment