Wednesday, 7 September 2022

دعاؤں کی ردا کا اس پہ سایا ہو گیا ہوتا

 دعاؤں کی ردا کا اس پہ سایا ہو گیا ہوتا

اگر وہ شخص بیکس کا سہارا ہو گیا ہوتا

جہاں کے درد کا ہر سو مدوا ہو گیا ہوتا

اگر الفاظ سے غم کا ازالہ ہو گیا ہوتا

سمندر کے تلاطم سے جو لاتے گوہرِ تاباں

ہمیشہ کے لیے روشن کنارا ہو گیا ہوتا

اگر راتیں ہماری مثل پیغمبر گزرتیں تو

یقیناً کامیابی کا سویرا ہو گیا ہوتا

تجھے قربت فقیہان عرب جو مل گئی ہوتی

تِرے دل کے اندھیرے میں اجالا ہوگیا ہوتا

محبت کے شفق سے تم اگر تعمیر کرتے گھر

تمہارے گھر کا روشن ہر منارا ہو گیا ہوتا

اگر میں وقت پر اس کو بچا لیتا نہیں صوفی

یقیناً وہ سر بازار رسوا ہو گیا ہوتا


صوفی بستوی

No comments:

Post a Comment