یہ دل سے میرے شوق سفر کیوں نہیں جاتا
میں گھر سے نکل جاؤں تو گھر کیوں نہیں جاتا
جب مجھ کو یہ لگتا ہے میری روح میں تُو ہے
پھر تجھ سے بچھڑ جانے کا ڈر کیوں نہیں جاتا
جب چھوڑ کے جاتا ہوں تِرے شہر کی گلیاں
حیرت مجھے ہوتی ہے کہ مر کیوں نہیں جاتا
وہ مجھ کو گزرنے نہیں دیتا جو گلی سے
پھر جان سے اپنی میں گزر کیوں نہیں جاتا
آنکھوں میں لیے پھرتا ہوں پیام میں اس کو
یہ دریا کسی روز اتر کیوں نہیں جاتا
محمد اقبال پیام
No comments:
Post a Comment