یہاں قائم کروں گا جب وجود اپنا
بچائیں گے کئی صاحب وجود اپنا
امیرِ شہر کی تقریر ہونی ہے
بچھا کے بیٹھ جائیں سب وجود اپنا
فنا کر دےگا سب کچھ ایک ہی پل میں
فقط باقی رکھے گا رب وجود اپنا
تو مر جائے گا، مٹ جائے گا اور تیرا
رواں رکھے گا ہر کرتب وجود اپنا
حکومت کی شقاوت کا یہ مطلب ہے
کہ کھونے کو ہے وہ اب تَب وجود اپنا
اندھیری ہی اندھیری ہے مگر پھر بھی
بنا لیتی ہے دن میں شب وجود اپنا
بڑی مشکل سے اُس کے سامنے تسنیم
بچاتے ہیں مہ و کوکب وجود اپنا
کوثر تسنیم سپولی
No comments:
Post a Comment