Monday, 21 July 2025

چاہتا ہوں کہ تیرا ہجر مصیبت نہ لگے

چاہتا ہوں کہ تیرا ہجر مصیبت نہ لگے

اب کوئی زخم ترے غم کی بدولت نہ لگے

اس کی یادوں کا سفر ختم کروں روئے بغیر

غیر ممکن ہے کہ اس کام میں حکمت نہ لگے

ظرف ٹوٹے ہوئے کشکول سے گر سکتا ہے

ایسی امداد سے بچنا جو سخاوت نہ لگے

شہر در شہر مجھے خاک اڑانی ہے مگر

اس پہ یہ شرط مسافت بھی مسافت نہ لگے

آؤ اعمال تراشی کی ریہرسل کر لیں

تاکہ جب اس کو پکاریں تو مشقّت نہ لگے

ایک سجدہ میری پیشانی کو درکار ہے جو

حسب توفیق لگے حسب ضرورت نہ لگے

تب میں سمجھوں گا کہ اس نفس نے کھائی ہے شکست

رائیگاں شئے جو مجهے مالِ غنیمت نہ لگے


شاہنواز انصاری

No comments:

Post a Comment