Sunday, 13 July 2025

کرب جدائی آنکھوں میں آنے نہیں دیا

 کرب جدائی آنکھوں میں آنے نہیں دیا

بے کار آنسوؤں کو بھی جانے نہیں دیا

میں نے نکل کے خود سے بنایا تجھے خدا

تو نے عقیدتوں کو نبھانے نہیں دیا

کچھ دان مانگ لیتا مگر رات دل نے بھی

سوئی ہوئی پری کو جگانے نہیں دیا

ہوتی قبول اس کے سوا کس کی رہبری

دل نے ہی انقلاب اٹھانے نہیں دیا

آنکھیں تھی میری کتنی رفاقت کی منتظر

میں نے انہیں یہ خواب سجانے نہیں دیا

اک رسم ہے وفا کے لئے بے وفائیں بھی

کیا ظلم ہے کہ اس کو نبھانے نہیں دیا

سچ ہے اسے خیال مری خواہشوں کا تھا

میں نے ہی زیر لب انہیں آنے نہیں دیا

اک فلسفہ اسی کی حقیقت سے مانگ کر

سر کو در بتاں پہ جھکانے نہیں دیا


اسلم نور

No comments:

Post a Comment