Saturday, 26 July 2025

خود پر کوئی طوفان گزر جانے کے ڈر سے

 خود پر کوئی طوفان گزر جانے کے ڈر سے 

میں بند ہوں کمرے میں بکھر جانے کے ڈر سے 

یہ لوگ مجھے خون کا تاجر نہ سمجھ لیں 

میں تیغ لیے پھرتا ہوں سر جانے کے ڈر سے 

ہر سائے پہ آہٹ پہ نظر رکھتا ہوں شب بھر 

بستر پہ نہیں جاتا ہوں ڈر جانے کے ڈر سے 

میں ٹوٹنے دیتا نہیں رنگوں کا تسلسل

زخموں کو ہرا کرتا ہوں بھر جانے کے ڈر سے

وہ ماں کی محبت کی بلندی تھی کہ اس نے

زندہ ہی نہ چھوڑا مجھے مر جانے کے ڈر سے

کچھ جیت میں بھی فائدہ ہوتا نہیں پھر بھی

وہ جنگ نہیں ہارتا ہرجانے کے ڈر سے

افسردہ حسن ہیں مرے لشکر کے سپاہی

اس تک مرے زخموں کی خبر جانے کے ڈر سے


حسن عزیز

No comments:

Post a Comment