Thursday, 17 July 2025

پہنچی ہے کس مقام پہ تشنہ لبوں کی پیاس

 پہنچی ہے کس مقام پہ تشنہ لبوں کی پیاس

پلکوں کو ہم نے دیکھا ہے اشکوں کے آس پاس

بجھتی نہیں ہے اوس سے شاید گلوں کی پیاس

آنسو ہی کچھ بکھیر دوں شبنم کے آس پاس

خوش کس طرح سے رہتے ہیں ویراں گھروں میں لوگ

اپنا تو ہو گیا ہے بھرے گھر میں جی اداس

لگتا ہے اس جہاں میں خوشی ہی نہیں رہی

جیسے اداس آپ ہیں ویسے ہیں ہم اداس

کس طرح نبھ سکے گی زمانے سے دوستی

میں بھی ہوں غم شناس مِرا دل بھی غم شناس

فرحت مجھے ازل سے ملا تھا یہی مزاج

اور کچھ مجھے زمانے نے رکھا ہے بد حواس


فرحت اقبال 

No comments:

Post a Comment