Sunday, 13 July 2025

اب کہاں وہ وقت کے بے لوث یاری چاہیے

 اب کہاں وہ وقت کے بے لوث یاری چاہیے

عمر کے اس دور میں اب ذمہ داری چاہیے

وصل‌ و فرقت کے طلسمی دائروں سے ٹوٹ کر

اب رفاقت میں ہمیں کچھ پائیداری چاہیے

یوں نہیں کے صبر کی تلقین کر کے چل دئیے

چارہ گر ہیں تو مسلسل غم گساری چاہیے

کس قدر ہیں لوگ میرے حال پر ماتم کناں

شکل پر اپنی بھی کچھ تو سوگواری چاہیے

ہم سفر چننا بھی ہے اک کاروبار زندگی

سو ہمیں عاشق نہیں اک کاروباری چاہیے


رافعہ زینب

No comments:

Post a Comment