اب کہاں وہ وقت کے بے لوث یاری چاہیے
عمر کے اس دور میں اب ذمہ داری چاہیے
وصل و فرقت کے طلسمی دائروں سے ٹوٹ کر
اب رفاقت میں ہمیں کچھ پائیداری چاہیے
یوں نہیں کے صبر کی تلقین کر کے چل دئیے
چارہ گر ہیں تو مسلسل غم گساری چاہیے
کس قدر ہیں لوگ میرے حال پر ماتم کناں
شکل پر اپنی بھی کچھ تو سوگواری چاہیے
ہم سفر چننا بھی ہے اک کاروبار زندگی
سو ہمیں عاشق نہیں اک کاروباری چاہیے
رافعہ زینب
No comments:
Post a Comment