خیالِ یار ہے اک ہم ہیں اور وحشت ہے
عجیب حال ہے اپنا عجب طبیعت ہے
نہیں ہے فائدہ کچھ بھی یہاں جہاں والو
یہ راہِ عشق ہے اس میں فقط اذیت ہے
اٹھا کے سر نہیں چل سکتے کوئے جاناں میں
یہ کیسا ظلم ہے اور کیسی بربریت ہے
مزید سہہ نہیں سکتے ہیں رنج و غم کے پہاڑ
نہ حوصلہ ہے جگر میں نہ دل میں طاقت ہے
غریبِ شہر ترستا ہے ایک لقمے کو
امیرِ شہر کا کتا بھی محوِ عشرت ہے
زمانہ ہے ستم ایجاد و ظالم و خوںخوار
جہاں سے اٹھتے ہیں ہم دل میں یاس و حسرت ہے
نہ کی جو مجھ سے محبت نصیحتیں مت کر
دلاسے دینے کی مجھ کو نہیں ضرورت ہے
سلیم جگ میں کسی کا نہیں کوئی ہمدم
کسی کے دل میں بھی اُلفت نہیں ہے، نفرت ہے
سلیم عباس قادر
No comments:
Post a Comment