Saturday, 19 July 2025

وہ موسم بے خودی کے تھے جو موسم ہم گزار آئے

 وہ موسم بیخودی کے تھے جو موسم ہم گزار آئے

کہ جب چاہا تمہارے نام سے خود کو پکار آئے

سفر کی سب اذیت منتظر آنکھیں اگر لے لیں

پروں میں طاقت پرواز پھر بے اختیار آئے

میں تشنہ لب زمینوں پر کہاں تک چشم تر رکھتی

سفر میں زندگی کے ہر قدم پر ریگزار آئے

غموں کے دوش پر جب قریۂ جاں کا سفر ٹھہرا

چراغ اشکوں کے رکھے خواب پلکوں سے اتار آئے

مرے خوابوں کے سارے رنگ جس کی مٹھیوں میں ہیں

نہ جانے اب وہ کیا چاہے یہاں کیوں بار بار آئے

بدلتے موسموں کو خوں سے رنگیں پیرہن دے کر

چلو ہم دست قاتل کا ہر اک احساں اتار آئے

وفا کے تشنگی کے اور کچھ معصوم وعدوں کے

یہ سارے قرض دیکھو ہم لب دریا اتار آئے


ملکہ نسیم

No comments:

Post a Comment