گھر جو بھرنا ہو تو رشوت سے بھی بھر جاتا ہے
ہاں مگر اس سے دعاؤں کا اثر جاتا ہے
اک عجب دور کہ دستار بچانی مشکل
اور اس کو جو بچاتا ہوں تو سر جاتا ہے
دیکھتا ہے کوئی ساحل سے سکوتِ دریا
لے کے کشتی کوئی طوفاں میں اتر جاتا ہے
دل سے یادوں کے تری نقش مٹے ہیں ایسے
جیسے پانی پہ کوئی عکس بکھر جاتا ہے
عشق انسان کو بدلے نہ یہ ممکن ہی نہیں
کیونکہ طوفاں بھی کبھی یونہی گزر جاتا ہے
جب بھی مسرور محبت میں ملے دل فیاض
دل مِرا ایسے ہی کچھ سوچ کے ڈر جاتا ہے
ریاض فاروقی
No comments:
Post a Comment