اے مطرب رنجور ترا ساز کہاں ہے
انساں کو جگا دے جو وہ آواز کہاں ہے
بے حکم ترے ہِلتا نہیں پتا شجر کا
شاہین میں خود طاقتِ پرواز کہاں ہے
اے چرخ! پتہ دے مجھے اس آہِ رسا کا
وہ نالۂ دل کی مِرے آواز کہاں ہے
حیدرؑ کی شجاعت کے فسانے ہیں جہاں میں
دنیا میں علیؑ سا کوئی جانباز کہاں ہے
اجڑے ہوئے گلشن کو جو مہکائے خزاں میں
خوشبوئے گُِلِ تر میں وہ اعجاز کہاں ہے
اڑنے کے لیے عزم بھی درکار ہیں، پر بھی
ہر دل میں مگر جرأتِ پرواز کہاں ہے
ہو سکتا ہے عقبیٰ میں ملے اجرِ محبت
دنیا میں وفا کا کوئی اعزاز کہاں ہے
کانٹوں کو میسر نہیں پھولوں کی ادائیں
پھولوں میں بھی کانٹوں کا سا انداز کہاں ہے
پھر بزمِ سخن کو ہے سخنور کی ضرورت
سب منتظرِ ناز ہیں، اب ناز کہاں ہے
ناز مرادآبادی
انوار احمد صدیقی
No comments:
Post a Comment