کیسے چھپاتا زخموں کو حاضرین سے
قطرہ ٹپک رہا تھا خود آستین سے
کچھ امتیاز دوری کا اب نہ رہ گیا
تصویر کھینچ لیتے ہیں دُوربین سے
اک روز غرق کر دے گا کائنات کو
دریا اُبل رہا ہے شاخِ یقین سے
حیرت میں پڑ نہ جائیں کیوں لوگ دیکھ کر
پودا اُگا رہا ہوں بنجر زمین سے
ایمان بیچتا ہوں کوڑی کے مول میں
ڈرتا کہاں ہے کوئی شرعِ متین سے
قربان! تھک گیا ہے تُو چیخ چیخ کر
یہ گھر تو لگ رہا ہے خالی مکین سے
قربان علی آتش
No comments:
Post a Comment