Tuesday, 29 July 2025

کیسے چھپاتا زخموں کو حاضرین سے

 کیسے چھپاتا زخموں کو حاضرین سے

قطرہ ٹپک رہا تھا خود آستین سے

کچھ امتیاز دوری کا اب نہ رہ گیا

تصویر کھینچ لیتے ہیں دُوربین سے

اک روز غرق کر دے گا کائنات کو

دریا اُبل رہا ہے شاخِ یقین سے

حیرت میں پڑ نہ جائیں کیوں لوگ دیکھ کر

پودا اُگا رہا ہوں بنجر زمین سے

ایمان بیچتا ہوں کوڑی کے مول میں

ڈرتا کہاں ہے کوئی شرعِ متین سے

قربان! تھک گیا ہے تُو چیخ چیخ کر

یہ گھر تو لگ رہا ہے خالی مکین سے


قربان علی آتش

No comments:

Post a Comment