تھرتھراتا ہے رکی موجوں کا شیشہ آنکھ پر
پڑ رہا ہے ڈوبتے منظر کا سایہ آنکھ پر
ڈھونڈتا رہ جائے گا اڑتا پتنگا روشنی
رفتہ رفتہ آ گرے گا ایک پتہ آنکھ پر
بادلوں کا رقص تھا نزدیک کے اک گاؤں میں
رک گیا تھا آن کر سیلابِ گریہ آنکھ پر
چبھ رہا تھا میرے اندر ایک کانٹا خوف کا
بوجھ بڑھتا جا رہا تھا رفتہ رفتہ آنکھ پر
فصلِ گُل آئے تو کیا شاخِ طرب مہکے تو کیا
ایک کانٹا روح میں ہے ایک کانٹا آنکھ پر
مصطفیٰ مومن
No comments:
Post a Comment