کبھی جگر کبھی تیرِ نظر کو دیکھتے ہیں
ہم ان کے رخ پہ وفا کے اثر کو دیکھتے ہیں
محبتوں کی حدوں سے جنہیں گزرنا ہے
کہاں وہ آن کھ میں دنیا کے ڈر کو دیکھتے ہیں
پتا بتائیں گے منزل کا ان کے نقشِ قدم
یوں ہی نہ غور سے ہم رہگزر کو دیکھتے ہیں
یہ اور بات ہے ان کی نظر ہے میری طرف
جو اہلِ بزم ہیں رشکِ قمر کو دیکھتے ہیں
کسے خبر تھی دغا بھی ہے ان کی فطرت میں
کبھی انہیں، کبھی ان کے ہنر کو دیکھتے ہیں
کہاں پرند بنائیں گے گھونسلہ اپنا
خیال آئے کٹے جب شجر کو دیکھتے ہیں
وہ آ گئے ہیں اچانک مکان میں تصدیق
نصیب کو کبھی ہم اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
تصدیق احمد خان
No comments:
Post a Comment