Monday, 28 July 2025

بے ستوں اک آسماں کو دیکھتے رہتے ہیں ہم

 بے ستوں اک آسماں کو دیکھتے رہتے ہیں ہم

اک خلائے بے کراں کو دیکھتے رہتے ہیں ہم

کیا بشر کا حال ہو جاتا ہے ان کے درمیاں

اس زمین و آسماں کو دیکھتے رہتے ہیں ہم

رہبروں کی بھیڑ میں کچھ راہزن بھی ہیں شریک

اب تو میر کارواں کو دیکھتے رہتے ہیں ہم

ہے خطا کس کی سزا ملتی ہے کس کو دیکھیے

اب جلال حکمراں کو دیکھتے رہتے ہیں ہم

ٹھیک کرنے کی تو کوشش کی مگر انجام کار

اپنے اس بگڑے جہاں کو دیکھتے رہتے ہیں ہم

ہر گھڑی پیش نظر رہتی ہے فرحت مصلحت

ہر گھڑی سود و زیاں کو دیکھتے رہتے ہیں ہم


فرحت اقبال

No comments:

Post a Comment