خون میں ڈوبے لبوں پر اک دعا رہ جائے گی
اک ابھرتی، ڈوبتی قاتل صدا رہ جائے گی
کیا پتہ کس روز چھِن جائے گی ہونٹوں کی ہنسی
حسرتوں کے دوش پر خالی ہوا رہ جائے گی
زرد پتوں کا کفن بھی ایک دن چھِن جائے گا
کیا بتاؤں؛ آبرو موسم کی کیا رہ جائے گی
آرزوؤں کا پرندہ پیاس سے مر جائے گا
رُت بدل جائے گی اور اندھی صبا رہ جائے گی
ہر شجر کا جسم ہو جائے گا ننگا دوستو
رقص انگاروں کا ہو گا اور گھٹا رہ جائے گی
مصطفیٰ مومن
No comments:
Post a Comment