غم فراق ہے میں آنسوؤں میں ڈوبا ہوں
شدید دھوپ میں بھی زیرِ آب بیٹھا ہوں
عجب نہیں کہ یہاں سبز کونپلیں پھوٹیں
میں اپنی سوچ کے صحرا پہ کھل کے برسا ہوں
ترے خیال کا سورج جہاں بھی ڈوبا تھا
اسی مقام پہ اب تک اداس بیٹھا ہوں
اڑا ہوں دور تلک گولیوں کی بارش میں
لہو کی جھیل سے نکلا ہوا پرندہ ہوں
لکھا ہے ہر در و دیوار پر ترا چہرہ
میں سطحِ آب پر اب اپنا نام لکھتا ہوں
مرے وجود میں رہتا ہے محتسب میرا
کسی نے روک لیا جب بھی حد سے گزرا ہوں
بہاؤ رک نہ سکا میری فکر کا شاہد
پہاڑ کاٹ کے اترا ہوں میں وہ دریا ہوں
شاہد واسطی
No comments:
Post a Comment