لفظوں کے ہیر پھیر کی ناؤ میں آ گیا
میں جل پری کے جال کے داؤ میں آ گیا
تجھ سے نظر ہٹانے کو کیا کیا نہیں کیا
پھر بھی چراغ تل کے الاؤ میں آ گیا
یہ گاؤں کی زندگی کی حسیں تر نظیر تھا
بس پھر بنانے والے کے بھاؤ میں آ گیا
اس گلبدن نے کھڑکی میں آنے کی بات کی
ہر بے بصر ذہنی دباؤ میں آ گیا
دنیائے خواہشات میں دونوں شریک تھے
پھر وہ معاشیات کے داؤ میں آ گیا
وہ مصلحت کے تیز بہاؤ میں بہہ گئی
کاشف بھی شاعری کے چناؤ میں آ گیا
کاشف اورا
No comments:
Post a Comment