Monday, 21 July 2025

گلشن گلشن خاک اڑی اور ویرانوں میں پھول کھلے

 گلشن گلشن خاک اڑی اور ویرانوں میں پھول کھلے

اب کے برس یوں موسم بدلا زندانوں میں پھول کھلے

خوشبو رت نے جاتے جاتے دل پر ایسی دستک دی

بھولی بسری یادیں جاگیں گل دانوں میں پھول کھلے

جوئے لہو آنکھوں سے پھوٹی کشت وفا سیراب ہوئی

خون گلو جب دشت پہ چمکا افسانوں میں پھول کھلے

ڈوب سکو تو پیار کا ساگر آج بھی ہے پایاب بہت

ساحل سے کیا دیکھ سکو گے طوفانوں میں پھول کھلے

آج اچانک اس کوچے میں لے آئے آوارہ قدم

جس کوچے میں برسوں گزرے ارمانوں میں پھول کھلے

خواب ہوئے وہ دن جب دل کی باتوں میں آ جاتے تھے

اب تو یہ بھی یاد نہیں کب پیمانوں میں پھول کھلے


مرتضیٰ علی شاد

ایم اے شاد

No comments:

Post a Comment