ہم کشتگان عشق انہیں بے وفا کہیں
ان کے ستم کو کیوں نہ ہم ان کی ادا کہیں
سر تا قدم خلوص سے ان کے جو ہو گئے
یہ سہو ہے جو اپنے سے ان کو جدا کہیں
وہ ہم سے پوچھ بیٹھیں اگر؛ کیا ہے تیرا نام
کوئی ہمیں بتائے کہ؟ ہم ان سے کیا کہیں
تم نے نگاہیں پھیر لیں ہم سے یہ غم تو ہے
اپنی قسم جو پھر بھی تمہیں بے وفا کہیں
کیا جانیے کہ ہو گی کہاں اس کی انتہا
بربادیوں کو اپنی اگر ابتداء کہیں
اللہ رے یہ دورِ فریبِ سیاسیات
دشمن کو بھی یہ وقت ہے آج آشنا کہیں
سر ہے ترے صعوبتِ نا کردہ کار عیش
اس زندگی کو جرم کے کس کی سزا کہیں
عیش میرٹھی
No comments:
Post a Comment