Wednesday, 16 July 2025

ہم کشتگان عشق انہیں بے وفا کہیں

 ہم کشتگان عشق انہیں بے وفا کہیں

ان کے ستم کو کیوں نہ ہم ان کی ادا کہیں

سر تا قدم خلوص سے ان کے جو ہو گئے

یہ سہو ہے جو اپنے سے ان کو جدا کہیں

وہ ہم سے پوچھ بیٹھیں اگر؛ کیا ہے تیرا نام

کوئی ہمیں بتائے کہ؟ ہم ان سے کیا کہیں

تم نے نگاہیں پھیر لیں ہم سے یہ غم تو ہے

اپنی قسم جو پھر بھی تمہیں بے وفا کہیں

کیا جانیے کہ ہو گی کہاں اس کی انتہا

بربادیوں کو اپنی اگر ابتداء کہیں

اللہ رے یہ دورِ فریبِ سیاسیات

دشمن کو بھی یہ وقت ہے آج آشنا کہیں

سر ہے ترے صعوبتِ نا کردہ کار عیش

اس زندگی کو جرم کے کس کی سزا کہیں


عیش میرٹھی

No comments:

Post a Comment