دشت میں قیس نما خاک اڑاتا ہے کوئی
یعنی برسوں سے چلی ریت نبھاتا ہے کوئی
مرے اندر کا سخن فہم سلامت ہے ابھی
خواب میں میرؔ کا اک شعر سناتا ہے کوئی
پھول گلدان میں رکھتے ہیں سبھی میزوں پر
نام کاغذ پہ ترا لکھ کے سجاتا ہے کوئی
جس طرح عہد گزشتہ کو نبھاتا ہے کوئی
یوں تری یاد کا تہوار مناتا ہے کوئی
گروی رکھتا ہے بدن آنکھ جوانی سب کچھ
خواب کو بیچ کے تعبیر کماتا ہے کوئی
سید صہیب ہاشمی
No comments:
Post a Comment