Tuesday, 29 July 2025

دشت میں قیس نما خاک اڑاتا ہے کوئی

 دشت میں قیس نما خاک اڑاتا ہے کوئی

یعنی برسوں سے چلی ریت نبھاتا ہے کوئی

مرے اندر کا سخن فہم سلامت ہے ابھی

خواب میں میرؔ کا اک شعر سناتا ہے کوئی

پھول گلدان میں رکھتے ہیں سبھی میزوں پر

نام کاغذ پہ ترا لکھ کے سجاتا ہے کوئی

جس طرح عہد گزشتہ کو نبھاتا ہے کوئی

یوں تری یاد کا تہوار مناتا ہے کوئی

گروی رکھتا ہے بدن آنکھ جوانی سب کچھ

خواب کو بیچ کے تعبیر کماتا ہے کوئی


سید صہیب ہاشمی

No comments:

Post a Comment