Tuesday, 29 July 2025

چلتے ہوئے اک روز ٹھہر جائیں گے ہم بھی

 چلتے ہوئے اک روز ٹھہر جائیں گے ہم بھی

دریا ہیں سمندر میں اتر جائیں گے ہم بھی

اب بیٹھ کے زخموں سے لہو پونچھ رہا ہے

پہلے تو وہ سمجھا تھا کہ ڈر جائیں گے ہم بھی

یہ کیا کہ ہر الزام ہمارے ہی سر آئے

آئینہ بنو تم تو سنور جائیں گے ہم بھی

توڑیں گے نہیں اپنے قبیلے کی روایت

ہنستے ہوئے مقتل سے گزر جائیں گے ہم بھی

بھاتی ہے ہمیں بھی در و دیوار کی خوشبو

کچھ خواب کما لیں گے تو گھر جائیں گے ہم بھی

اخلاص کے رشتہ نے ہمیں باندھ رکھا ہے

دشمن یہ سمجھتا تھا بکھر جائیں گے ہم بھی

شرمندہ ہوا گھر میں وہ کچھ دیر لگا کر

سمجھا تھا صدا دے کے گزر جائیں گے ہم بھی


شکیل ابن شرف

No comments:

Post a Comment