چلتے ہوئے اک روز ٹھہر جائیں گے ہم بھی
دریا ہیں سمندر میں اتر جائیں گے ہم بھی
اب بیٹھ کے زخموں سے لہو پونچھ رہا ہے
پہلے تو وہ سمجھا تھا کہ ڈر جائیں گے ہم بھی
یہ کیا کہ ہر الزام ہمارے ہی سر آئے
آئینہ بنو تم تو سنور جائیں گے ہم بھی
توڑیں گے نہیں اپنے قبیلے کی روایت
ہنستے ہوئے مقتل سے گزر جائیں گے ہم بھی
بھاتی ہے ہمیں بھی در و دیوار کی خوشبو
کچھ خواب کما لیں گے تو گھر جائیں گے ہم بھی
اخلاص کے رشتہ نے ہمیں باندھ رکھا ہے
دشمن یہ سمجھتا تھا بکھر جائیں گے ہم بھی
شرمندہ ہوا گھر میں وہ کچھ دیر لگا کر
سمجھا تھا صدا دے کے گزر جائیں گے ہم بھی
شکیل ابن شرف
No comments:
Post a Comment