شمع غم ہجر کی راتوں میں جلاتا کیوں ہے
اور جلاتا ہے تو پھر اس کو بجھاتا کیوں ہے
خون میں ڈوبی ہوئی تصویر کہاں تک دیکھوں
روز تُو شہر کی رُوداد سناتا کیوں ہے
جب انہیں تیرے ہی ہاتھوں سے اجڑنا ہے تو پھر
بستیاں اپنے علاقوں میں بساتا کیوں ہے
جن کو آتا نہیں شمشیر اٹھانے کا ہنر
تُو انہیں جنگ کے آداب سکھاتا کیوں ہے
صبح ہوتے ہی یہ ہو جائیں گے خود ہی خاموش
صبح سے پہلے چراغوں کو بجھاتا کیوں ہے
سُر بدل، تال بدل، ساز کی آواز بدل
ایک ہی دُھن پہ مجھے روز نچاتا کیوں ہے
زخم ایسا تو نہیں دل پہ لگا ہے تیرے
عشق میں شور انیس اتنا مچاتا کیوں ہے
انیس اشفاق
No comments:
Post a Comment